Monday 24 November 2014

عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستین نہیں ہے


عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستین نہیں ہے



عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستین نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے افق یہ مہر جبیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہیں ہے
یہ کون اٹھا کر دیر و کعبہ شکستہ دل خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے،عوام ہہنچے
تری لحد پر خدا کی رحمت تری لحد پر سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انسان میں سوچتا ہوں کہاں گیاہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ،زماں کا زور بیاں گیا ہے
اتر گئے کئی منزلوں کے چہرے ،میر کیا۔۔کارواں گیاہے
مگر تری مرگ نا گہاں کا اب تک مجھے یقین نہیں ہے
تو میرے خوابیدہ آنسوو ں کو ،او مرنے والے جگا چکا ہے
زمین کے تاروں سے ایک تارہ فلک کے تاروں میں جا چکا ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے اب تک یقین نہی

5 comments: